آپ ﷺ اپنے آپ کو دنیا میں مسافر کی طرح سمجھتے تھے۔ دنیوی عیش و آرام سے تعلق نہ تھا۔ بلکہ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَانَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيل دنیا میں غریب الوطن مسافر یا راستہ گزرنے والے کی طرح رہو کا عملی نمونہ تھے۔ (نشر الطیب )
آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں کہیں سے کوئی صدقہ وغیرہ کی رقم آتی تو جب تک آپ ﷺ اس کو غریبوں اور مستحقین میں تقسیم نہ فرما دیتے اس وقت تک گھر کے اندر تشریف نہ لے جاتے۔ (نشر الطيب)
جب حضور کسی ضرورت مند محتاج کو دیکھتے تو اپنا کھانا پینا تک اٹھا کر عنایت فرما دیتے حالانکہ اس کی آپ کو بھی ضرورت ہوتی ۔
آپ کی عطا اور سخاوت مختلف صورتوں سے ہوتی تھی۔ کسی کو کوئی چیز ہبہ فرما دیتے ، کسی کو اس کا حق دیتے کسی کو کوئی ہدیہ دیتے۔ کبھی کپڑا خریدتے اور اس کی قیمت ادا کر کے اس کپڑے والے کو وہی کپڑا بخش دیتے اور کبھی قرض لیتے اور اس سے زیادہ عطا فرما دیتے اور کبھی کپڑا خرید کر اس کی قیمت سے زیادہ رقم عطا فرما دیتے اور کبھی ہدیہ قبول فرماتے اور اس سے کئی گنا سے زیادہ رقم عطا فرما دیتے اور اس سے کئی گنا زیادہ اس کو انعام عطا فرما دیتے۔
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے کبھی کسی شخص سے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا (اگر اس وقت موجود ہو تو عطا فر ما دیتے ورنہ دوسرے وقت کا وعدہ فرما لیتے یا اس کے حق میں دعا فرماتے کہ حق تعالیٰ اس کو کسی اور طریقے سے عطا فرما دیں )۔ (شمائل ترمذی)
آپ ﷺ طرح طرح کی صورتوں میں خیرات و عطیات تقسیم فرمایا کرتے تھے باوجود اس کے حضور ﷺ کی خود اپنی زندگانی فقیرانہ طور پر بسر ہوتی تھی۔
ایک ایک دو دو مہینے گزر جاتے کہ حضور ﷺ کے کاشانہ میں چولہا تک نہ جلتا اور بسا اوقات شدت بھوک سے اپنے شکم اطہر پر پتھر باندھ لیا کرتے ۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ فقر تنگی و مجبوری کچھ نہ ہونے کے سبب سے نہ تھا بلکہ اس کا سبب زہد اور جو دو سخا تھا اور کبھی اپنی ازواج کے لیے ایک سال کا گزارہ مہیا فرما دیتے لیکن اپنے لیے کچھ نہ بچا کر رکھتے۔ (مدارج النبوہ)
سبحان الله
بےشک
اللہم صل علی محمد