عالمی یوم آزادی صحافت:چند سلگتےگوشے | Quran Family Club
USD ($)
$
United States Dollar
Pakistan Rupee
د.إ
United Arab Emirates dirham
ر.س
Saudi Arabia Riyal
£
United Kingdom Pound
Euro Member Countries
¥
China Yuan Renminbi
Rp
Indonesia Rupiah

عالمی یوم آزادی صحافت:چند سلگتےگوشے

Created by Dr Molana Jahan Yaqoob in Activities 3 May 2024
Share
عالمی یوم آزادی صحافت:چند سلگتےگوشے
پریس کی آزادی سے مرادیہ ہے کہ پریس اورمیڈیاکو،مخصوص حدودوقیودکے ساتھ،ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہر قسم کی معلومات اور خیالات حاصل اور فراہم کرنے کا حق ہے۔بغیر سنسر شپ یا انتقام کے خوف کے۔ اس میں رائے کے اظہار، تنقید اور اقتدار میں رہنے والوں کو جواب دہ ٹھہرانے کی آزادی شامل ہے۔یہ آزادی ایک جمہوری معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ آزادی صحافت کا عالمی دن 3 مئی کو منایا جاتا ہے، تاکہ صحافیوں کو درپیش چیلنجز اور معلومات کے ہموار بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لیےبیداری پیدا کی جا سکے۔
بد قسمتی سے دنیابھرمیں پریس آزادنہیں، آزادی صحافت کا مکمل احترام اور تحفظ نہیں کیا جاتا۔ بہت سے ممالک میں ایسے قوانین اور ضابطے ہیں جو آزادی صحافت کو محدود کرتے ہیں، اور صحافیوں کو مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بشمول:
1. سنسر شپ 2. ہراساں کرنا 3. ڈرانا 4. قیدوبند 5. تشدد 6. قتل
پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق، 2022 میں، دنیا کی صرف 24 فیصد آبادی آزاد پریس سے لطف اندوز ہوئی، جب کہ 37 فیصد کے پاس جزوی طور پر آزاد پریس ہےاور 39 فیصد کے پاس غیر آزاد پریس ہے،یعنی اُن کاپریس حکومتی پابندیوں اوراسٹبلشمنٹ کے طےکردہ نارواضابطوں کی زنجیروں میں جکڑاہواہے،جونہی کوئی پریس،میڈیاہاؤس،اینکریاصحافی اس حدودکوپارکرکے حقائق منظرعام پرلانے کی کوشش کرتاہے،اُس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی اوراُس کی آوازکوہمیشہ کے لیے بندکرنے کی سعیِ نامسعودکی جاتی ہے۔بہت سے ممالک میں صحافیوں کو اکثر حساس موضوعات پر رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے،یہاں تک کہ مضبوط جمہوری روایات کے حامل ممالک میں بھی، کبھی کبھی سیاسی دباؤ، معاشی مفادات یا قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے آزادی صحافت کاگلا گھونٹ دیاجاتا ہے۔
آج جب دنیابھرمیں آزادیِ صحافت کاعالمی دن منایاجاتاہے،افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہےکہ پاکستان میں میڈیا مکمل طور پر آزاد نہیں ہے،یہاں پریس،میڈیااورصحافت پر پابندیاں ہیں۔ اگرچہ 2002 میں نشریات پر ریاستی اجارہ داری ختم ہونے کے بعد سے پاکستانی میڈیا متنوع ہو گیا ہے، لیکن اب بھی بہت سی پابندیاں ہیں۔ بدقسمتی سےپاکستان کی ہرحکومت نے،چاہے وہ مارشل لاکے ادوارتھے یاجمہوری حکمرانی کے، تنقیدی صحافت کےمعاملےمیں ہمیشہ تنگ دلی کامظاہری کیاہےجوعدم برداشت،دھونس دھمکی،زبان بندی،قیدوبند،نظربندی اوردوسرے حربوں پرمنتج ہواہے۔
آزادی صحافت کے لیے جدوجہد جاری ہے، اور رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ جیسی تنظیمیں آزادیِ صحافت کی وکالت کرتی ہیں اور ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے صحافیوں کی حمایت کرتی ہیں۔ہرملک میں اس قسم کی تنظیمیں قائم ہیں اوروہ جدوجہدکرتی رہتی ہیں،اگرچہ اُس کے کماحقہ ثمرات سامنے نہیں آپاتے،جس کی ایک وجہ بیرونی دباؤاورمتعلقہ ممالک کی بیوروکریسی کاآزادانہ فیصلے کرنے کی قوت سے محروم ہونابھی ہےاورایک وجہ خودپریس سے تعلق رکھنے والےمیڈیاہاؤسز،چینلزاورپرسنزکااپنی وفاداریاں تبدیل کرنااوراپناوزن حکومت کے پلڑے میں ڈالنااور صحافیوں کی سیاسی وفاداریاں بھی ہیں۔جب صحافی کسی مخصوص فکراورجماعت کانمائندہ بن جائے تووہ غیرجانب دارانہ اورآزادصحافت کسی قیمت پرکرہی نہیں سکتا۔
استعماری قوتیں اوربالادست ممالک نے دنیامیں جہاں جہاں اپنے مذموم مقاصدومفادات کے حصول کے لیے جنگیں برپاکررکھی ہیں،اُن کی کوشش ہوتی ہےکہ وہاں پریس کوجانے سے روکاجائے تاکہ وہ دنیاکے سامنے جوکچھ یش کریں وہ صرف اُن کی تائیدمیں جائےاورمظلوم فریق کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔اس وقت دنیاکی سب سے بڑی جنگ اسرائیل اوراُس کی پشتیبان عالمی استعماری قوتوں نے فلسطین بالخصوص گزہ میں برپاکررکھی ہے،وہاں بھی حتی الامکان میڈیااورپریس کوروکنے کے لیے ریستی مشینری کاآزادنہ استعمال کیجاتاہے،لیکن سوشل میڈیاکی وجہ سے حقائق پرپردہ نہیں ڈالاجاسکاہے۔صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (سی پی جے) اور صحافیوں کی بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ایف جے) نے اطلاع دی ہے کہ غزہ میں جنگ کے پہلے سات مہینوں میں 100 سے زیادہ صحافی اور میڈیا ورکرز، جن میں اکثریت فلسطینیوں کی ہے، مارے جا چکے ہیں۔ . CPJ نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ 2024 میں اب تک 25 صحافی اور میڈیا ورکرز مارے جا چکے ہیں، جن میں سے 20 فلسطین میں تھے۔غزہ میں جنگ کی کوریج کرنے والے فلسطینی صحافیوں کو،اُن کی جرات وبہادری اورجاں نثاری وجاں سپاری کی وجہ سے یونیسکو ورلڈ پریس فریڈم پرائز سےبھی نوازا گیا ہے۔
بعض لوگ مغالطہ دیتے ہوئے توہینِ مذہب و رسالت کوبھی آزادیِ اظہارکی ایک صورت اوراپناجائز حق باورکراتے ہیں۔حالانکہ یہ بات دوجمع دوچارکی طرح واضح ہے کہ آزادی صحافت اور توہینِ مذہب رسالت دو الگ الگ تصورات ہیں۔ توہین مذہب سے مراد کسی مذہبی عقیدےیامقدس علامت(جسے شعائرِدین کہاجاتاہے) کی توہین کا عمل ہے،جبکہ توہینِ رسالت سے مرادکسی بھی نبی کی شان میں توہین وگستاخی کرناہے،جیساکہ مغرب ویورپ وقتاًفوقتاًنبی آخرالزماں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں اِس قسم کی دریدہ دِہنی کرکے مسلمانوں کے جذبات کومشتعل کرنے اورنقصِ امن کی صورِ حال پیداکرنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ یہ کسی طرح بھی آزادیِ اظہارِ رائے کے زمرے میں نہیں آتا،خوداِن ممالک میں ایسے قوانین ہیں جو توہین مذہب ورسالت کو جرم قرار دیتے ہیں۔
آزادی صحافت اور توہین مذہب رسالت کے درمیان اہم فرق یہ ہیں:
1. مقصد: پریس کی آزادی کا مقصد معلومات اور نظریات کے پھیلاؤ کی حفاظت کرنا ہے، جب کہ توہین مذہب رسالت کے قوانین کا مقصد مذہبی عقائد اور حساسیت کا تحفظ ہے۔
2. دائرہ کار: پریس کی آزادی ایک وسیع حق ہے، جس میں اظہار کی تمام اقسام شامل ہیں، جبکہ توہین مذہب ورسالت کے قوانین عام طور پر مخصوص قسم کے اظہارسے روکنے کے لیے ہوتے ہیں،جن کاتعلق کسی بھی دین ومذہب کی مقدس شخصیات اورشعائرکے ساتھ ہوتاہے۔
3. ارادہ: پریس کی آزادی کا مقصد عوامی بحث، تنقید اور احتساب کو فروغ دینا ہے، جبکہ توہین مذہب ورسالت کے قوانین اکثر مذہبی عقائد کو تنقید یا جانچ سے بچانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
اِس وقت،جب یہ سطورلکھی جارہی ہیں،فرانس میں ایک بارپھراللہ کی آخری مقدس ومکمل کتاب قرآن کریم کو جلانے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے۔کیافرانس کواِس کاحق دیاجاسکتاہے؟فرانس میں، اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، لیکن جب یہ دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے یا نفرت یا تشدد کو ہوا دیتا ہے تو اسے محدود کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کو جلانے کے عمل کو مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر حملے اوراُن کے جذبات کومستعل کرکےاُنھیں تشددپرمجبورکرناہے۔اِس قسم کی قبیح حرکتوں سےاُن کےجذبات مجروح ہوتے ہیں اوروہ جب سراپا احتجاج بنتےہیں،جواُن کاجمہوری حق ہےتواِس کے نتیجےمیں ملک میں سیاسی،سماجی اور معاشی سطح پر بدامنی پھیلتی ہے۔اِس لیے مغرب ویورپ کواِس قسم کی قبیح حرکتوں سے بازآجاناچاہیے۔اقوام متحدہ،سلامتی کونسل اوراسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیموں کواِس معاملےمیں سخت ضوابط مرتب کرکےتمام ممالک کواِن کاپابندکرناچاہیےتاکہ یہ سلسلہ،جوتھوڑے وقفے کے بعد،پھرشروع ہوجاتاہے،پمیشہ کے لیے بندہوجائے۔جس طرح غیرمسلموں کوقرآن ورسالت اوردینی شعائرکی توہین کاحق نہیں دیاجاسکتا،اِسی طرح ملک میں کسی میڈیاہاؤس یامیڈیاپرسن کوتحقیق کے نام پر،امت کے ساڑھے چودہ سوسالہ وہ مسائل جن پرامت ایک اجماعی مؤقف اختیارکرچکی ہےنیزامت کی سب سے مقدس شخصیات حضراتِ صحابہ کرامؓ پرتنقیدکاحق بھی نہیں دیاجاسکتا۔یہ کوئی علمی تحقیق اورخدمت نہیں ہے۔مشاجراتِ صحابہؓ کوعوام میں لانااُنھیں صحابہ کرامؓ سے متنفرکرنےکے مترادف ہے۔حال ہی میں ایک گستاخ ملعون نے جس طرح ذوالنورین،ذوالہجرتین،ذوالبیعتین،اکامل الحیاءوالعرفان،کامل الایمان والایقان ،شہیدِ مدینہ میرالمؤمنین حضرت سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنھماکی شان میں گستاخی کی ہے،اگرمیڈیاکوپیمرااورپی ٹی اے کی طرف سےضابطہ اخلاق کاپابندکیاجاتاکہ امت کی مسلمہ مقدس شخصیات پرکوئی تنقیدی پروگرام نہ ہوگا،تواِس گستاخی کی نوبت نہ آتی۔اب بھی وقت ہے،ملک وقوم کومذہبی اشتعال اورانارکی سے بچانے کے لیےمرتکب مجرموں کوپابندِ سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ ضابطہ اخلاق بھی مرتب کرکےاُس پرسختی سے عمل کروایاجائےاورایسے جتنے بھی چینلزہیں،اُن کے لائسنس کینسل کردیے جائیں!
May be a doodle of banner, magazine, pen, poster and text that says
See insights and ads
Like
Comment
Share

Comments (0)

Share

Share this post with others