حضور صلی الله عليه وسلم کی مجالس خیر و برکت | Quran Family Club
USD ($)
$
United States Dollar
Pakistan Rupee
د.إ
United Arab Emirates dirham
ر.س
Saudi Arabia Riyal
£
United Kingdom Pound
Euro Member Countries
¥
China Yuan Renminbi
Rp
Indonesia Rupiah

حضور صلی الله عليه وسلم کی مجالس خیر و برکت

Created by Miss.Fatima Ameen in Activities 27 Apr 2024
Share

آپ ﷺ کی مجلس حلم و علم ، حیا و صبر اور متانت وسکون کی مجلس ہوتی تھی اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور کسی کی حرمت پر کوئی داغ نہ لگایا جاتا تھا اور کسی کی غلطیوں کی تشہیر نہ کی جاتی تھی۔

آپ ﷺ کے اہل مجلس ایک دوسرے کی طرف تقویٰ کے سبب متواضعانہ طور پر مائل ہوتے تھے۔ اس میں بڑوں کی توقیر کرتے تھے اور چھوٹوں پر مہربانی کرتے تھے اور صاحب حاجت کی اعانت کرتے تھے اور بے وطن پر رحم کرتے تھے۔ (نشر الطیب)

حضرت زید بن حارث سے روایت ہے کہ میں حضور ﷺ کا ہمسایہ تھا جب حضور پر وحی نازل ہوتی تو آپ مجھے بلاوا بھیجتے میں حاضر ہو کر اس کو لکھ لیتا تھا۔ (حضورﷺ ہم لوگوں کے ساتھ حد درجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے) جس قسم کا تذکرہ ہم لوگ کرتے حضور ﷺ بھی اسی قسم کا تذکرہ فرماتے یہ نہیں کہ بس آخرت کا ہی ذکر ہمارے ساتھ کرتے ہوں اور دنیا کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اکرم بھی آخرت کے تذکرے فرماتے ۔ یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہو جاتا تو اسی کے حالات و تفصیلات حضور اکرم ﷺ بیان فرماتے اور جب کھانے پینے کا کچھ ذکر ہوتا تو حضور اکرم بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے۔ کھانے کے آداب و فوائد لذیذ کھانوں کا ذکر مضر کھانوں کا تذکرہ و غیرہ ۔ یہ سب کچھ آپ ﷺ ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ (فصائل نبوی)

 اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی بات کے متعلق سوال کرتا تو آپ اس کو نا پسند فرماتے اور تعجب سے اس کی طرف دیکھتے۔

اگر کسی مسئلہ کے بیان میں حضور انور ﷺ مصروف ہوتے

اور قبل اس کے سلسلہ بیان ختم ہو کوئی شخص دوسرا سوال پیش کر دیتا تو آپ اپنے سلسلہ تقریر کو بدستور جاری رکھتے ۔ معلوم ہوتا کہ گویا آپ ﷺ نے سنا ہی نہیں۔ جب گفتگو ختم کر لیتے تو سائل سے اس کا سوال معلوم کرتے اور اس کا جواب دیتے۔

صحابہ کرام کے مجمع میں ہوتے تو درمیان میں تشریف رکھتے اور صحابہ حضور ﷺ کے ارد گرد حلقے پر حلقہ لگائے بیٹھے ہوتے اور آپ بوقت گفتگو بھی اُدھر رخ کر کے مخاطب فرماتے اور کبھی اِدھر ۔ گویا حلقہ میں سے ہر شخص بوقت گفتگو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کو دیکھ لیتا۔

حضور نبی کریم ﷺ کا بیٹھنا اور اٹھنا سب ذکر اللہ کے ساتھ ہوتا اور اپنے لیے کوئی جگہ بیٹھنے کی ایسی متعین نہ فرماتے کہ خوامخواہ اسی جگہ بیٹھیں اور اگر کوئی بیٹھ جائے تو اس کو اٹھا دیں اور دوسروں کو بھی جگہ متعین کرنے سے منع فرماتے تھے اور جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جس جگہ مجلس ختم ہوتی وہاں ہی بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی حکم فرماتے اور اپنے تمام جلیسوں میں سے ہر شخص کو اس کا حصہ اپنے خطاب و توجہ سے دیتے ۔ یعنی سب سے جدا جدا متوجہ ہو کر خطاب فرماتے یہاں تک کہ آپ کا ہر جلیسں یوں سمجھتا کہ مجھ سے زیادہ آپ ﷺ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

جو شخص کسی ضرورت کے لیے آپ ﷺ کو لے کر بیٹھ جاتا یا کھڑا رہتا تو جب تک وہی شخص نہ اٹھ جائے آپ ﷺ اس کے ساتھ مقید رہتے۔

جو شخص آپ سے کچھ حاجت چاہتا تو بغیر اس کے کہ اس کی حاجت پوری فرماتے یا نرمی سے جواب دیتے اس کو واپس نہ کرتے۔

آپ ﷺ کی کشادہ روئی اور خوش خوئی تمام مسلمانوں کے لیے عام تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ آپ ﷺ ان کے روحانی باپ تھے۔

اور تمام لوگ آپ کے نزدیک حق میں فی نفسہ مساوی تھے۔ البتہ تقوی کی وجہ سے متفاوت تھے۔ یعنی تقوی کی زیادتی سے تو ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے تھے اور دیگر امور میں سب باہم مساوی تھے اور حق میں سب آپ ﷺ کے نزدیک برابر تھے۔ (روایات از حسن ابن علی )

Comments (1)

Molana Samiullah Aziz User
27 Apr 2024 | 04:14 pm

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

Miss.Fatima Ameen User
9 May 2024 | 07:45 pm

آمین یا رب العالمین

Share

Share this post with others