ER">اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک پرائیویٹ زندگی دی ہے اور کسی بھی انسان کو اس
پر مکمل اختیار نہیں دیا ہر ایک کی کچھ
حدود مقرر کردی ہیں چاہے وہ والدین ہوں ، یا بیوی بچے ہوں یا دوست احباب ہوں مسائل
تب جنم لیتے ہیں جب انسان اپنی اور دوسروں کی حدود کا نہیں سمجھتا بلکہ اپنی مرضی
سے طئے کرلیتا ہے کہ یہ حق میرا ہے تو ٹکراو کی فضا قائم ہوتی ہے کیونکہ آپ جس چیز
کو اپنا حق سمجھتے ہے وہ دوسرے انسان کی نگاہ میں آپ کا حق ہوتا ہی نہیں ہے یہ معاملہ تب سلجھ سکتا جب دونوں افراد یہ
معاملہ اللہ تعالی کے قانون سے حل کروائیں ، بلکل اسی طرح اللہ تعالی نے دو افراد
کو یہ حق دیا ہے کہ جب وہ آپس میں بیٹھے ہوں کوئی تیسرا انسان ان کی اجازت کے بغیر
انکے درمیان نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی کیلئے حلال نہیں
کہ دو آدمیوں کو جدا جدا کر دے ( جو مل کر بیٹھے ہوئے ہوں تو ان میں گھس بیٹھے ) الا
یہ کہ ان دونوں کی اجازت ہو ۔‘‘ جس طرح کسی تیسرے کے بیٹھنے سے مجلس میں بیٹھے
دونوں افراد اپنی بات نہیں کرسکتے اور انکی مجلس خراب ہوجاتی ہے اسی طرح جس صاحب
کے ہاتھ میں موبائل ہے اس کو بس اتنا نظر آرہا ہوتا کہ بندہ آن لائن ہے تو یہ سمجھتا
وہ فارغ بھی ہے تو یہ فورا فون کردیتا ہے یا میسجز کا سلسلہ اس طرح شروع کرتا ہے
کہ اسے فوری ریسپانس بھی ضروری چاہئیے ہوتا ہے اور اگر سامنے والا اپنی مجبوری کا مصروفیت کا اظہار کرے تو یہ اسے اپنی توہین
سمجھتا ہے کہ میرے اتنے گہرے تعلق کے
باوجود یہ کسی اور کو اہمیت کیسے دے سکتا ہے مجھے نو کیسے کہ سکتا ہے اس نے ایسا کرنے سے صرف ایک حرام کام نہیں کیا کہ ان
کی مجلس خراب کی بلکہ بدگمانی پالی اور اپنا تعلق بھی خراب کیا اور سامنے والے
کوبھی اذیت میں مبتلا کیا اور خود بھی اذیت مول لی ،اگر یہ اسی وقت اللہ تعالی کی
قائم کردہ حد کا خیال رکھتا اور انتظار کرلیتا جب تک کہ سامنے والا اسے خود
ریسپانس کرتا تو شاید کچھ بھی خراب نہ ہوتا
آپ غور کریں جب ایک والد اپنی بیٹی کے گھر جائے اور اندر آنے کی اجازت لے
اور اسے اجازت نہ ملے تو یہ سورت النور کی آیت28
mso-bidi-language:ER"> اسے کیا درس دیتی ہے:کہ اور اگر تم سے کہا جائے کہ : واپس چلے
جاؤ۔ تو واپس چلے جاؤ۔ یہی تمہارے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے، اور تم جو عمل بھی کرتے
ہو اللہ کو اس کا پورا پورا علم ہے۔ اگر خدانخواستہ میاں بیوی میں تھوڑی رنجش ہو
اور وہ عین اس وقت والد پہنچے تو سوچیں اس کا انجام کیا نکلے گا ، اس کی بجائے اگر
یہ واپس لوٹ آئیں اور میاں بیوی اپنا معاملہ درست کرکے والد صاحب کے پاس آئیں تو
کیسا ہوگا ، اسی طرح جب آپ زبردستی بغیر اجازت کسی مجلس میں فزیکل گھستے ہیں یا
موبائل فون کے ذریعے گھستے ہیں اور اجازت نہ ملنے پر بھی آتے ہیں تو یہ شرعا
اخلاقا کسی طرح درست نہیں بلکہ کئی سارے فسادات کی جڑ ہے ۔
"Alvi Nastaleeq";mso-hansi-font-family:"Alvi Nastaleeq"">
یہ بہت اہم مسٸلہ ہے اج کل کا۔ بہت شکریہ راہنماٸی فرمانے کے لے۔ ہمیں واقعی اپنے ہر معاملے میں اللہ کے بناۓ قوانین اور حدود سے راہنماٸی لینی چاہیے۔ جزاك اللهُ
ماشاء اللّٰہ سے بہت اچھے سے اصلاح ھوتی ہے پتہ چلتاہے کہ قرآن میں ہمیں کیا آداب بتائے جا رھے ہیں جزاک اللّٰہ خیرا کثیرا
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی قائم کردہ حدود پر عمل پیرا ہونے میں نہ صرف اخروی بلکہ دنیوی کامیابیاں بھی مضمر ہیں
اللہ ہمیں اپنی قائم کردہ حدود کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین
بیشک اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اگر ہم اُنکے مطابق زندگی گزاریں تو زندگی بہت آسان ہے