آپ کے ذہن میں مسلسل کوئی نا کوئی سوچ چلتی رہتی ہے اور اسی سے عمل کو وجود ملتا ہے اب اگر وہ چلنے والی سوچ اچھی ہے تو اچھا عمل وجود میں آئے گا اور اگر خدانخواستہ وہ سوچ منفی ہے تو یقینا منفی عمل ہی وجود میں آئے گا ،اب مثبت و منفی سوچ کا دائرہ تقریبا کافی حد تک مختلف انسانوں میں مختلف ہوتا ہے ، ایک انسان ایک چیز کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے جبکہ دوسرا انسان اسی چیز کو برا سمجھ رہا ہوتا ہے تو جب انسان اسلام میں داخل ہو کر اپنے آپ کو مسلمان کہلوانا شروع کرتا ہے تو وہ اپنی سوچ کو اللہ تعالی کے تابع کردیتا ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں وہ اسے پسند کرنے لگتا ہے اور جس چیز کو اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے ہیں وہ اسے ناپسند کرنے لگتا ہے ، تو اس خاص پسند نا پسند اور سوچ کے نتیجے میں جو اعمال صادر ہوتے ہیں وہ اس کی نگاہ میں مثبت ہوتے ہیں اور اس خاص پسند ناپسند اور سوچ کے مخالف سوچ سے جو اعمال صادر ہوتے ہیں وہ اس کی نگاہ میں منفی کہلاتے ہیں ، مثال کے طور پر رشتہ داروں کا رویہ اور معاملہ ایسا ہے کہ ان کی شکل ہی انسان نہ دیکھے بات کرنا تو دور کی بات لیکن اللہ تعالی کی پسند یہ کہ قطع تعلق نہیں ہونا تو یہ انسان ان کی تمام تر زیادتیوں کو نظر انداز کرکے اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو ترجیح دیتے ہوئے قطع تعلق نہیں ہوتا ۔اصل بنیاد پر ضرور نگاہ رہے کہ آپ کی سوچ بن کیسے رہی ہے آپ کے اپنے ذہن کا نتیجہ ہے جس کو آپ نے اپنے آس پاس کے حالات کا مشاہدہ کرکے بنایا ہے یا پھر یہ سوچ ان ہدایات کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ تک پہنچی ہیں ۔ جس دن آپ اس بنیاد کو سمجھ لیں گے آپ کے دوست اور دشمن بدل جائیں گے آپ کے اپنے اور آپ کے غیر بدل جائیں گے اور آپ کی زندگی کو ایک نیا رخ مل جائے گا ان شاء الله
ان شاءاللہ
ان شاء اللہ