اسلام علیکم ناظرینِ کرام!
آج کا ہمارا موضوع ہے: اتمینانِ قلب کی سائنس — ہومیوپیتھک فلسفے کی روشنی میں۔
اتمینانِ قلب ایک ایسی نعمت ہے جو دنیا کی کسی مارکیٹ سے خریدی نہیں جا سکتی۔
یہ نہ دولت سے ملتی ہے، نہ شہرت سے، نہ ہی کسی ظاہری کامیابی سے۔
یہ ایک باطنی کیفیت ہے جو انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے، اور ہومیوپیتھی کے فلسفے میں اس کا گہرا تعلق انسان کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ہم آہنگی سے ہے۔
ہومیوپیتھی میں مریض کو صرف اس کے ظاہری مرض کے لحاظ سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کی مکمل شخصیت، مزاج، جذبات اور طرزِ زندگی کو مدِنظر رکھ کر علاج کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھک دوا صرف جسمانی علامات کو نہیں بلکہ اندرونی بے سکونی، اضطراب، خوف، غصہ، حسد یا احساسِ محرومی جیسے جذباتی اسباب کا بھی علاج کرتی ہے۔
ہومیوپیتھک فلسفے کے مطابق جب انسان کی اندرونی قوتِ حیات (وائٹل فورس) میں خلل پیدا ہوتا ہے، تو دل و دماغ بے چین ہو جاتے ہیں۔ اور جب یہی وائٹل فورس متوازن ہو جاتی ہے تو انسان خود بخود سکون، اطمینان اور ذہنی ہم آہنگی محسوس کرتا ہے۔ یعنی جب قوتِ حیات منتشر ہو، تو بے سکونی ہوتی ہے، اور جب یہی قوت ترتیب میں آتی ہے، توازن میں آتی ہے، تو سکون، صحت اور خوشی آ جاتی ہے، اطمینانِ قلب حاصل ہو جاتا ہے۔
ہومیوپیتھی میں بہت سی ایسی دوائیں موجود ہیں جو ڈپریشن، انزائٹی، غم، خوف، حسد اور جلن جیسے جذباتی امراض کا مؤثر علاج کرتی ہیں۔
اور اگر ہم دیکھیں تو اسلامی تعلیمات بھی اسی نکتہ کی تائید کرتی ہیں کہ "دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہے۔"
ہومیوپیتھی جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی اور ذہنی علاج کو بھی اہمیت دیتی ہے۔
حقیقی سکون نہ صرف دوا سے، بلکہ دوا اور روحانیت کے باہمی توازن سے حاصل ہوتا ہے۔
ہومیوپیتھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر بیماری کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، اور جب ہم اس کہانی کو سمجھ لیتے ہیں، تو شفا کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔
جب بیماری کا سبب پہچان لیا جائے اور اسے دور کر دیا جائے تو شفا حاصل ہو جاتی ہے۔
اور تب جا کر ہمیں نصیب ہوتا ہے حقیقی اطمینانِ قلب۔
اب میں بات کرتا ہوں صحت کی تعریف کی۔
اومیوپیتھی کے بانی ڈاکٹر سیموئل ہانیمن نے 1842 میں صحت کی جو تعریف پیش کی، وہ حیرت انگیز طور پر وہی تصور ہے جو ایک صدی بعد 1948 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بیان کیا۔
ہانیمن کے مطابق:
"صحت کی حالت میں وہ روحانی نوعیت کی آئینی قوت (وائٹل فورس)، جو جسم کو زندگی عطا کرتی ہے، مکمل اختیار کے ساتھ جسم کے تمام افعال کو ہم آہنگی اور توازن سے چلاتی ہے، تاکہ عقل والا ذہن اپنے صحت مند جسم کو اپنی فطری مقاصد کے لیے آزادانہ استعمال کر سکے۔"
یعنی اصل صحت تب ہوتی ہے جب جسم، ذہن اور جذبات میں مکمل ہم آہنگی ہو، اور انسان اپنی فطری زندگی بھرپور طریقے سے گزار سکے۔
WHO کی تعریف یہ ہے:
"صحت صرف بیماری یا کمزوری کی غیر موجودگی کا نام نہیں، بلکہ جسمانی، ذہنی اور سماجی طور پر مکمل بھلائی کی کیفیت کا نام ہے۔"
دونوں تعریفیں واضح کرتی ہیں کہ صحت صرف جسمانی پہلو تک محدود نہیں، بلکہ ذہنی، جذباتی اور سماجی توازن بھی صحت کا لازمی جزو ہیں۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہانیمن نے جو جامع، گہرا اور توازن پر مبنی تصورِ صحت 100 سال پہلے دیا، وہی بعد میں دنیا نے قبول کیا۔
یہ ہومیوپیتھی کی فکری گہرائی اور وقت سے آگے کی سوچ کا ثبوت ہے۔
اسی لیے ہومیوپیتھی کسی ایک عضو یا علامت کو نہیں، پورے انسان کو دیکھتی ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے:
"ہومیوپیتھی میں مریض کا علاج ہوتا ہے، مرض کا نہیں۔"
یعنی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کو اس مرض سے آزاد کر دیا جائے، مکمل صحت کی طرف لے جایا جائے۔
آخر میں، میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک خاص مزاجی دوا Carcinosin کا۔
اس دوا کی اساس ہے ایک درد مند دل، ایک بے چین روح۔
میرا ایک دوست، جو اب اس دنیا میں نہیں رہا، اس کی شخصیت کارسینوسن مزاج کی بہت بڑی مثال تھی۔
وہ وقتی طور پر کارسینوسن کے دوروں میں مبتلا ہوتا، مگر ان لمحات میں اس کی باتیں کسی پاگل کی نہیں، بلکہ ایک بیدار دل اور احساسِ ضمیر رکھنے والے انسان کی لگتی تھیں۔
یہ دوا ان حساس دلوں کی دوا ہے جن کے اندر درد چھپا ہوتا ہے، جنہیں بچپن میں جذباتی دباؤ، قربانی اور برداشت کا زہر دیا گیا ہو۔