USD ($)
$
United States Dollar
Pakistan Rupee
د.إ
United Arab Emirates dirham
ر.س
Saudi Arabia Riyal
£
United Kingdom Pound
Euro Member Countries
¥
China Yuan Renminbi
Rp
Indonesia Rupiah

"مدرسہ اور یونیورسٹی کے درمیان فاصلہ کیوں؟ | دینی و دنیاوی تعلیم کا فرق اور حل | مکمل تجزیہ"

Created by Dr Banaras Khan in Natural Care and Training Center 12 Jun 2025
Share

مدرسہ اور یونیورسٹی – فاصلہ کیوں اور حال کیا؟

السلام علیکم محترم ناظرینِ کرام!

ہمارا آج کا موضوع ہے: "مدرسہ اور یونیورسٹی – فاصلہ کیوں اور حال کیا؟"

مدرسہ اور یونیورسٹی دو ایسے تعلیمی ادارے ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں مسلم معاشرے کو علم کی روشنی عطا کی۔

مگر بدقسمتی سے آج ان دونوں اداروں کے درمیان ایک نمایاں فاصلہ، بداعتمادی اور فکری تضاد پایا جاتا ہے۔

مدرسے کے علماء یونیورسٹیوں کی تعلیم کو محض دنیاوی سمجھ کر اس سے اجتناب کرتے ہیں۔

جبکہ یونیورسٹی کے اہلِ فکر مدارس کی تعلیم کو قدامت پسندی اور محدود دائرے میں محصور سمجھ کر اس پر تنقید کرتے ہیں۔

اس فاصلے کے کئی اسباب ہیں۔

ایک طرف مدارس میں سائنسی، معاشی اور جدید سماجی علوم کی کمی ہے جس کے باعث وہاں کے طلبہ عصری تقاضوں سے نابلد رہ جاتے ہیں۔

دوسری طرف یونیورسٹیوں میں اسلامی علوم، قرآن، فقہ، حدیث اور سیرت کی گہری اور سنجیدہ تعلیم کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے فارغ التحصیل افراد دینی بصیرت سے محروم رہتے ہیں۔

دراصل یہ دونوں ادارے ایک ہی دریا کے دو کنارے ہیں۔

دونوں کی بنیاد علم ہے۔

دونوں کا مقصد انسان کی اصلاح اور معاشرے کی ترقی ہے۔

قرآن نے علم کو نور قرار دیا ہے۔

اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔"

اس فرمان میں نہ دینی و دنیاوی کی تخصیص ہے اور نہ مدرسہ و یونیورسٹی کی تقسیم۔

اس فاصلہ کو کم کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات نہایت ضروری ہیں:



  1. نصاب میں توازن پیدا کیا جائے۔

    مدارس میں سائنسی، معاشی اور سماجی مضامین کو شامل کیا جائے۔

    یونیورسٹیوں میں اسلامیات، عربی، فقہ اور سیرت جیسے مضامین کو گہرائی سے پڑھایا جائے۔




  2. اساتذہ و طلبہ کے باہمی تبادلے کے پروگرامز متعارف کرائے جائیں۔

    دونوں ادارے ایک دوسرے کے اساتذہ کو لیکچرز کے لیے مدعو کریں، طلبہ کو مشترکہ سرگرمیوں میں شامل کریں، تاکہ ایک دوسرے کو سمجھا جا سکے۔




  3. مشترکہ سیمینارز، ورکشاپس اور مذاکرے منعقد کیے جائیں۔

    جہاں دونوں مکاتبِ فکر کے ماہرین مل کر علمی تبادلہ کریں، فکری قربت پیدا ہو، اور اختلاف کی بجائے اشتراک کو فروغ ملے۔




  4. نئی نسل کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں علم کو صرف دینی یا دنیاوی نہ سمجھا جائے، بلکہ دونوں کو ایک مکمل نظام کا حصہ مانا جائے۔

    انہیں سکھایا جائے کہ کامیابی اسی میں ہے کہ دین اور دنیا دونوں پہلوؤں میں توازن ہو۔



اگر ہم نے اس فکری خلیج کو باقی رکھا تو ہمارا معاشرہ فکری تنگی اور تقسیم کا شکار رہے گا۔

اور اگر ہم نے اس خلا کو پاٹ لیا، تو ایک ایسا متوازن، باشعور اور باخبر مسلمان وجود میں آئے گا جو دین و دنیا دونوں میں امت کی رہنمائی کر سکے گا۔

اور آخر میں ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم پیش ہے:

"حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے، جہاں سے ملے، لے لو۔"

مجھے سننے کا بہت شکریہ۔

اللہ ہمیں علم سے روشنی عطا فرمائے، اور دین و دنیا کے علم میں توازن نصیب فرمائے۔ آمین۔

Comments (0)

Share

Share this post with others