سحری کھانے میں برکت ہے۔
نیند سے اٹھ جانے کے بعد جان بوجھ کر سحری ترک نہیں کرنی چاہئے۔
عَنْ أَنَسٍ له قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ : تَسَخَرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ .
حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ سلم نے فرمایا "سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
رمضان المبارک میں فجر کی اذان سے پہلے سحری کے لئے اذان دینا سنت ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ بِلَالًا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أَمْ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ .
حضرت عائشہ رضہ اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت بلال رات کو ( سحری سے قبل ) اذان دے دیا کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دے دیں اس لئے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے جب تک فجر نہ ہو جائے ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں دیر سے کھانا
انبیاء کرام ہی کا طریقہ ہے۔
عنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ : ثَلَاثَ مِنْ أَخْلَاقِ النَّبُوَّةِ تَعْجِيلُ الْإِفْطَارِ وَ تَاخِيرُ السُّحُورِ وَ وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ » رَوَاهُ الطَّبَرَانِي
(صحیح)
حضرت ابو درداء کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " تین باتیں اخلاق نبوت سے ہیں روزہ جلدی افطار کرنا سحری دیر سے کھانااور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھنا ۔ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
کھجور سے روزہ افطار کرنا سنت ہے ۔
سیدنا انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں، تو خشک کھجور تناول فرما لیتے، یہ بھی نہ ہوتیں، تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد2356)
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی اذان (فجر) سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے فورا نہ رکھ دے بلکہ اپنی ضرورت پوری کر لے۔“
(ابوداؤد 2350)
روزہ افطار کرنے کے لئے غروب آفتاب شرط ہے۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے، نیز سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار اپنا روزہ افطار کردے۔‘‘
(بخاری 1954)