+923076652006
quranfamilyclub@gmail.com
English flag
English
Select a Language
English flag
English
$
USD
Select a Currency
United States Dollar
$
Pakistan Rupee
United Arab Emirates dirham
د.إ
Saudi Arabia Riyal
ر.س
United Kingdom Pound
£
Euro Member Countries
China Yuan Renminbi
¥
Indonesia Rupiah
Rp
0
میری علمی و فکری تربیت کے محسنین
میری علمی و فکری تربیت کے محسنین

میری علمی و فکری تربیت کے محسنین

انسان وہی بڑا ہے جو اپنے محسنوں کو یاد رکھے

Molana Samiullah Aziz
Written by Molana Samiullah Aziz
Published on 5 Oct 2025
Study Duration 4 Mins.


This heartfelt article by Samiullah Aziz, founder and organizer of the Quran Family Club, is a tribute to the teachers, mentors, and companions who shaped his spiritual, academic, and organizational journey. From the early guidance of Qari Faiz Ali and Qari Abdullah to the scholarly mentorship of Maulana Dr. Wali Khan Al-Muzaffar, Dr. Hafiz Abdul Raheem, and many others, each played a vital role in molding his vision for Quranic education in Pakistan.

🌿 میری علمی و فکری تربیت کے محسنین
از: مولانا سمیع اللہ عزیز
زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ علم ہے، اور علم تک پہنچنے کا سفر ہمیشہ تنہا نہیں ہوتا۔یہ راستہ ان چراغوں کی روشنی سے منور ہوتا ہے جو انسان کے دل و دماغ میں یقین، فکر اور سمت پیدا کرتے ہیں۔میری زندگی میں بھی ایسے بے شمار چراغ روشن ہوئے — اساتذہ، والدین، مشفقین اور رفقائے کار کی صورت میں — جنہوں نے میرے شعور، کردار اور مشن کی بنیاد رکھی۔یہ تحریر انہی تمام محسنوں کے نام ایک خراجِ عقیدت ہے۔
ابتدائی تعلیم اور قرآنی تربیت:
میری علمی زندگی کا آغاز قرآنِ مجید کے نور سے ہوا۔بچپن میں قاری فیض علی، قاری عبد اللہ، اورقاری محمد صاحب  اور  قاری احمد رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کے حروف اور اس کی محبت دل میں اتاری۔یہ وہ دور تھا جب قرآن صرف زبانی سبق نہیں، بلکہ قلبی تعلق کا درس دیتا تھا۔اسکول میں جب قدم رکھا تو دیگر اساتذہ کے ساتھ  ماسٹر غلام علی  رحمۃ اللہ علیہ  اور ماسٹر رمضان رحمۃ اللہ علیہ جیسے محنتی اور بااخلاق اساتذہ نے میرے اندر علم کا شوق، ذمہ داری کا احساس، اور اخلاقی مضبوطی پیدا کی۔ان ہی دنوں میں تعلیم، کردار اور عزتِ نفس کا جو رشتہ بنا، وہ آج بھی قائم ہے۔
دینی تعلیم اور فکری تربیت
دینی تعلیم کے مرحلے نے میری سوچ اور سمت کو نئی بنیاد دی۔جامعہ بنوریہ کراچی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جہاں مولانا محمد عمررحمۃ اللہ علیہ ، مولانا افتاب صاحب، مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن شہید رحمۃ اللہ علیہ ، اور مولانا ساجد محمود جیسے جلیل القدر اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے علم کو صرف الفاظ نہیں، بلکہ دل و عمل کا تعلق بنا کر پڑھایا۔اسی دوران جامعہ فاروقیہ کراچی کے ایام میں  شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ ،مولانا ڈاکٹر عادل خان رحمۃ اللہ علیہ مولانا ڈاکٹر  عبد الرزاق اسکندر رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا شفیق احمد خان بستوی ، مولانا حبیب اللہ زکریا،مولانا سلیم اللہ زکریا  ،مولانا منظور احمد مینگل، شیخ الحدیث مولانا انور ،مولانا نور البشر ،مولانا یوسف افشانی ،مولانا عزیز الرحمن عظیمی،مولانا اسد اللہ ،مولانا نور المتین ،مولانا عبد الرزاق ، مولانا محمد زادہ ،مولانا بدر الدین ،مولانا عبد الستار   اور مولانا ولی خان المظفر جیسے اکابر کے دروس اور افکار سے فیض ملا۔خصوصاً مولانا ولی خان المظفر کی نگرانی میں عربی زبان و ادب کی تخصصی تربیت نے میری علمی سمت کو بدل دیا۔ان کی سرپرستی میں ملک کے 18 شہروں میں عربی زبان کے تربیتی پروگرامز منعقد کیے، جنہوں نے عربی تدریس کے ایک نئے باب کی بنیاد رکھی۔
ذہنی و روحانی تشکیل کے محسن
میرا فکری و دینی ذہن جن بزرگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ ہیں  حضرت خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمد نواز سیال رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا عبد المجید لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا زاہد الرشدی ، مولانا عبد الغفار  رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا منظور احمد رحمۃ اللہ علیہ ۔انہوں نے دین کی گہرائی، توازن اور عملی ترجیحات کو سمجھنے کا زاویہ دیا۔ان کی صحبت نے مجھے سکھایا کہ علم اگر کردار سے خالی ہو تو بے وزن، اور دعوت اگر اخلاص سے خالی ہو تو بے اثر ہو جاتی ہے۔
گھر کی تربیت — دعا، قربانی اور کردار
میری کامیابیوں کی بنیاد میرے والدین کی قربانیوں اور تربیت میں ہے۔ان کی مسلسل دعائیں، نصیحتیں، اور اخلاقی رہنمائی نے مجھے ہمیشہ مضبوط رکھا۔
میرے چچا ملک نازک صاحب نے ہر موڑ پر عملی تعاون اور شفقت سے حوصلہ دیا۔میرے بھائیوں میں ڈاکٹر صابر حسین ملک کی استقامت، اور کلیم اللہ، سیف اللہ، اور نعیم اللہ کا مثالی ساتھ ہمیشہ میری طاقت رہا۔اور میری فیملی  کا کردار اس حوالے سے   انتھک محنت ، قربانیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے نہایت مثالی ہے ۔یہ سب وہ افراد ہیں جنہوں نے نہ صرف ساتھ دیا بلکہ ہر مرحلے پر راستہ آسان بنایا۔
اعلیٰ تعلیم اور جدید علمی رجحانات
یونیورسٹی کے دور نے علمی اور تحقیقی افق کو وسعت دی۔پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبد الرحیم اور ڈاکٹر ابوذر خلیل ، پروفیسر ڈاکٹر محمد عزیز   جیسے مخلص اساتذہ نے تحقیق، فہم اور زبان کے ذوق میں گہرائی عطا کی۔ اور اس موقع پر میں ڈاکٹر رحمی ، ڈاکٹر عذرا اور داکٹر عمار حیدر ، ڈاکٹر صادق ، ڈاکٹر الطاف لنگڑیال ، ڈاکٹر اسرار ، ڈاکٹر شوکت ، ڈاکٹر اسد الرحمن ، ڈاکٹر ریحانہ کوثر کے کردار کو نہیں بھول سکتا ،  ان سب  کی رہنمائی نے میری علمی سمت کو استدلال، تحقیق اور عمل کے توازن کے ساتھ جوڑا۔اسی طرح میری فکری و منظم  زندگی میں ڈاکٹر یوسف عباس مرزا کا کردار خاص اہمیت رکھتا ہے۔القرآن کیمپلیکس کی بنیاد سے انتظام کی نگرانی کے تمام مراحل میں  ان کی نگرانی ، رہنمائی نے میری زندگی کو بامقصد بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ 
رفقائے سفر — مشن کے ہمسفر
میرے سفر کے ہر موڑ پر اللہ نے ایسے مخلص رفقاء عطا کیے جنہوں نے مشن کو تقویت بخشی۔میری علمی و تنظیمی زندگی میں محمود ایزد بٹ، ڈاکٹر ریحان فائق، انجینئر سلطان بشیر محمود ،مولانا مشتاق احمد طاہر، مولانا عاشق الہی، آفتاب ایڈوکیٹ، عمران صاحب، صاحبزادہ نجیب احمد، حافظ ارشد، طارق صاحب، آصف فاروقی، قاری شمس الرحمن، مولانا عبد الباسط اعوان، قاری محمد یسین، قاری سیف اللہ خالد اور مفتی محمد طیب ، قاری محمد جاوید ، قاری عبد الرحمن یعقوب ، قاری عبد الواحد یعقوب ، قاری محمد صادق ،شعیب مصطفی، مولانا خالد محمد ازہر ،مولانا عبد الرووف صدیقی ، مولانا عامر شہزاد ، مولانا محمد فاروق ، مولانا زاہد صدیقی ، مولانا  امان اللہ خان ، ڈاکٹر عبد الرشید   ، اور  میڈم لبنی فروغ ، رقیہ نواز ، ام کلثوم ، قبطیہ جہانگیر ، حمنہ ارشد ، آصفہ قدیر ،اقرا یوسف ، جیسے مخلص اور دردِ دل رکھنے والے ساتھی ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہے۔ان سب کی رفاقت علم، عمل اور اخلاص کے امتزاج کی علامت ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے بغیر یہ سفر ادھورا رہتا — ان میں ہر ایک نے اپنے مقام سے روشنی بانٹی ہے۔
ادارتی خدمات 
اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ تعلیم اور زبانِ قرآن کے فروغ کے لیے مختلف اداروں میں منظم کام کیا جائے۔2007میں مجمع اللغۃ العربیۃ بباكستان کی بنیاد رکھی، تاکہ عربی زبان کی تعلیم و تدریس کو جدید تربیتی انداز میں منظم کیا جا سکےایم فل کے بعد سے  یونیورسٹی قرآن فورم میں اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر اور قرآن فیملی کلب میں منتظم کی حیثیت سے خدمت کر رہا ہوں۔قرآن فیملی کلب اب ایک وسیع تعلیمی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں سینکڑوں اساتذہ ملک بھر میں قرآن، عربی زبان، تدبر، اخلاق اور تربیت کے مختلف کورسز پڑھا رہے ہیں۔اور اس عملی میدان اور مشن میں  فاطمہ امین صاحبہ  نے معلمات کو منظم انداز میں چلانے ، ان کو حوصلہ دینے ،جوڑے رکھنے میں مثالی ساتھ دیا ہے اور انکی وجہ سے سینکٹروں گھروں میں قرآن مجید کی تعلیمات کا سلسلہ جاری ہے   اور شعیب مصطفی اور   انیلہ مصطفی  صاحبہ نے قرآن فیملی کلب کو جدید ترین لرننگ مینیجمنٹ سسٹم میں ڈھالنے میں جان مال وقت سب لگایا کہ آج  الحمد للہ ہم اس قابل ہوئے کہ ہزاروں اساتذہ ومعلمات کو  پڑھانے کے لئے اور لاکھوں طلبہ و طالبات کو پوری دنیا سے پڑھنے کے لئے منظم پلیٹ فارم فراہم کر سکے ہیں ۔ اس موقع پر ان تمام اساتذہ ومعلمات کا بھی مشکور ہوں جو ہمارے نظام کا حصہ ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں  اس مشن کا مقصد قرآن کو محض ایک کتاب نہیں بلکہ زندگی کے نظام کے طور پر پیش کرنا ہے۔یہ ادارے علم، کردار اور عمل کی ایک مربوط کوشش ہیں — تاکہ قرآن کے ذریعے فرد، خاندان اور معاشرے میں شعور اور تبدیلی پیدا کی جا سکے۔
شکر، محبت اور دعا
آج جب میں اپنے ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو دل میں ایک ہی جذبہ ابھرتا ہے —شکر، محبت اور دعا۔آج  جس مقام پر ہوں، وہ میرے اساتذہ، والدین، فیملی ، رفقاء اور احباب کی محنتوں، رہنمائی اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ان میں سے ہر ایک میرے سفر کا سنگِ میل ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو  اپنی شان کے  مطابق جزائے خیر عطا فرمائے،ان کے علم و عمل میں برکت دے،اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے، ان کے مشن کو آگے بڑھانے اور علم و قرآن کے ذریعے امت کی فکری بیداری میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ تحریر ان تمام محسنوں کے نام ایک خراجِ عقیدت ہے جنہوں نے میرے اندر علم، ادب، اخلاص اور عمل کا شعور بیدار کیا۔
اللہ تعالیٰ ان سب کے علم و اثر کو جاری و ساری رکھے، اور ہمیں بھی ان کی طرح کسی کے دل و دماغ میں روشنی بانٹنے والا بنا دے۔ 🌿


Comments

Mrs.Anila Mustafa
Mrs.Anila Mustafa
Instructor
5 Oct 2025
استاد ،صرف ایک استاد نہیں بلکہ ایک معمار ہوتا ہے جو ایک ننے سے درخت کو لگا کر پھر اس کی آبیاری کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے تناور درخت بننے تک حفاظت کرتا ہے تبھی تو یہ درخت اس استاد کے لیے صدقہ جاریہ بنتا ہے اور دوسروں کے لیے سایہ۔ بہت شکریہ سمیع اللہ عزیز صاحب۔ ہماری فکری تربیت میں آپ کا بہت کردار ہے۔
Reply to Comment
Comments Approval

Your comment will be visible after admin approval.

میری علمی و فکری تربیت کے محسنین
You are studying
میری علمی و فکری تربیت کے محسنین
Study Duration 4 Mins.